ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ اور پاکستانی کرکٹ ٹیم

“جاہلوں کا ذکرنہیں، بڑے بڑوں کوہم نے اس خوش فہمی میں مبتلا دیکھا کہ زیادہ نہ کم پورے بائیس کھلاڑی کرکٹ کھیلتے ہیں۔ ہم قواعد و ضوابط سے واقف نہیں لیکن جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، اسی کی قسم کھاکر عرض کرتے ہیں کہ در حقیقت کرکٹ صرف ایک ہی شخص کھیلتا ہے۔ مگر اس کھیل میں یہ وصف ہے کہ بقیہ اکیس حضرات سارے سارے دن اس مغالطے میں مگن رہتے ہیں کہ وہ بھی کھیل رہے ہیں۔ “

یوسفی صاحب زندہ ہوتے تو کرکٹ کے بارے میں اپنی رائے سے رجوع کر لیتے، اب کرکٹ دو لوگوں کا کھیل نہیں رہا ۔ خدا رنگ لگائے رکھے، اس ٹی ٹوئنٹی کرکٹ نے کھیل کا مزاج ہی نہیں، رنگ ڈھنگ بھی بدل ڈالا ہے ۔ گو کہ ہم ایج(edge) پر لگے ہوئے چھکے کو بدعت شمار کرتے ہیں، مگر اس طوفانی طبیعت کا کیا کیجئے کہ جس کو فٹبال کا نوے منٹ کا میچ دیکھ دیکھ کر سبک رفتاری کی عادت سی ہو گئی ہے۔ جب سے فٹبال باقاعدہ حلق سے اتری ہے کرکٹ کے بارے میں وہ سارے واقعات سچے لگنا شروع ہو گئے تھے جو ہٹلر اور دیگر آمروں سے منسوب کئے جاتے ہیں (واقعہ جو ہم تک پہنچا ہے وہ آدھا سچ ہے، اور آدھے سچ میں مبالغہ آرائی ہوتی ہے جو کہ ادب کی ایک اہم صنف ہے، ہٹلر نے پابندی ضرور لگائی تھی لیکن ٹیم کا قتلِ عام نہیں کیا تھا) ۔
حالیہ دنوں میں ٹی ٹونٹی کے عالمی مقابلوں نے جس طرح پوری قوم کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے، بالکل اسی طرح ہم بھی دوبارہ اسی شدومد کے ساتھ اپنی قومی ٹیم کو دبئی کے رنگ آف فائر سے شارجہ اور ابو ظہبی کے میدانوں تک فتح کے جھنڈے گاڑتے اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانے کے مناظر کو دیکھ کر اپنی قومیت کے پیرہن کو دوبارہ اوڑھنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس وقت ہم اپنے ملک میں نہیں ہیں اور سر دست ہمارا شمار اس اقلیت میں ہوتا ہے جس کو ڈالر کا ریٹ بڑھنے کا فائدہ ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کرکٹ سے وہ لگاؤ دوبارہ انگڑائیاں لیکر بیداری کے مراحل میں ہے جو کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا، جب مکان کچے اور جذبے سچے ہوا کرتے تھے، میچ فکسنگ ہوتی بھی تھی تو ہم معصوموں تک خبر ہی نہیں پہنچتی تھی سو ہم اپنی ٹیم کو دنیا کی سب سے پوتر اور پاکباز ٹیم سمجھتے تھے، ہم بڑے نا ہوتے تو شاید اب بھی وہی محبت کی چاشنی برقرار رہتی ۔
سردست یہ کہنے کو اپنے قلم کی سیاہی سے حروف سادہ کو تازگی بخشنے کی اپنے تئیں سعی کئے دیتے ہیں کہ ورلڈ کپ میں جہاں بلے کی پھرتی اور گیند کی تیزی نے دیکھنے والوں کو متاثر کیا وہیں فیلڈرز کی چستی کو نطر انداز کر دینا اور ان کی تعریف میں کنجوسی اور بخل کرتے رہنا متوازن رائے رکھنے والوں کی لوز شاٹ گنی جائے گی۔ اس فارمیٹ میں جو ٹیم بہترین کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے اس نے بلاشبہ اپنی جس کمزوری کو سب سے پہلے ختم کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہی فیلڈنگ کی کمزوری ہے ۔ اب ہماری قومی ٹیم کوہی دیکھ لیجئے، وہ دن ابھی یاد ہیں جب مکھن لگے ہاتھوں سے بڑے بڑے نامی گرامی کھلاڑی وہ کیچ گرایا کرتے تھے جس کو ہم یہ کہہ کر چھوڑ دیا کرتے تھے کہ “بچہ سمجھا ہوا ہے کیا، تھوڑا مشکل پھینک ۔۔۔۔۔” اور اب وہ دن ہیں کہ ہمارے گیارہ میں شاید ہی کوئی ایسا فیلڈر ہو جس کی فیلڈنگ پر اعتماد نا کیا جا سکے ۔
تو وقت کی بدلتی ساعتوں کے ساتھ کرکٹ نے بھی اپنے آپ کو بدلا ہے جو کہ اب صرف گیند اور بلے کا کھیل نہیں رہا ۔ گیارہ کے گیارہ کھیل رہے ہوتے ہیں اور بالخصوص ٹی ٹونٹی میں جو ٹیم اپنی فیلڈنگ سے بیس پچیس رنز بھی بچا لے، وہ میچ کے حتمی فیصلے کو اپنی جانب لے جاتی ہے ۔ عالمی کپ میں ہماری ٹیم اب تک الحمدللہ ناقابلِ شکست رہی ہے اور سیمی فائنل تک رسائی کا پروانہ مل چکا ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ٹیم فتح مند ہو کر وطن لوٹے گی تو عوام ان کا خیر مقدم اسی انداز میں کرے گی جس طرح ماضی قریب میں چیمپیئنز ٹرافی کی فتح کے بعد سر آنکھوں پر بٹھایا تھا ۔ پاکستان زندہ باد ۔۔۔!
Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

Start a Conversation

Your email address will not be published. Required fields are marked *