پانچ سال تو ہو ہی گئے ہوں گے، چھوٹے بچوں کی پہلی لیگ جوگنگ ٹریک پر جاری تھی، عبدالرشید نے ایک روز پوچھا کہ اگر آپ کو فیض اور معظم میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو تو کس کا کریں گے؟ ہمارا جواب تب بھی ’’فیض‘‘ تھا اور اب بھی فیض ہے ۔ (معظم کو چائے پلائے کافی عرصے ہو گیا ۔۔۔۔)
وہ چپ چاپ سا رہتا تھا، اپنے کام سے کام رکھتا تھا، وہ ان بچوں میں نہیں تھا جنہیں پاس نہ ملے تو منہ بنا لیا کرتے ہیں، بس جو ہو رہا ہے ہونے دو۔ عموماً الگ تھلگ۔ سوال کیجئے تو جواب پائیے وگرنہ خاموش رہئے، یقیناً کچھ نہ کچھ سوچتا ضرور ہوگا۔ یوں بھی خاموشی پیچھے طوفان کا فلسفہ تو سن ہی رکھا تھا۔ فیض گراؤنڈ آتا اپنا کام کرتا اور واپس چلا جاتا۔ ان دنوں فیض کی وہ مسکراہٹ زبان زد عام تھی جو تصویر لینے کے دوران سمائل پاس کرتے ہوئے فیض کے چہرے پر چنبیلی بن کر کھِل اٹھتی ۔ ’’وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں‘‘ ہو جایا کرتی تھیں اور ہم کو ’خلوصِ بے شعور‘ اور ’شوقِ سادہ لوح‘ جیسے ثقیل الفاظ کا مجسم مطلب سمجھ میں آجایا کرتا تھا۔ دھیما مزاج، نرم دمِ گفتگو، چال ڈھال میں توازن، انسانوں میں گویا آسمان سے ٹوٹا ہوا تارا، حساس دل و دماغ میں پیدا ہونے والے خیال سے بھی نازک، آفاق کی اس کار گہِ شیشہ گری میں perfection کا استعارہ نیز سر تا سر فیض ہی فیض ۔۔۔۔۔!
پھر وہ وقت آیا کہ فیض اور معظم کی جوڑی کیمپس کپ میں شرارتی ٹولہ بن گئی، چیونٹی کے گویا پَر نکل آئے۔ اس مشکوک گٹھ جوڑ کا کُھرّا تلاش کیا گیا تو پتہ چلا کہ خیر سے صحبت کا اثر ہوا ہے، خربوزے کو دیکھ خربوزہ رنگ چھوڑ رہا ہے۔ فیض پورے گراؤنڈ میں کُلکاریاں مارتا پھرتا، ہر آنے جانے والے سے چھیڑ چھاڑ کرتا، ادھر ہم انگشت بہ لب اس ادائے لغزشِ پا پر حیراں و سرگرداں، جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے تھے۔ فیض صاحب یاد آ گئے :
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہم راز کا رنگ
اب فیض کی مسکراہٹ ایک قہقہہ بن چکی تھی، خاموشی پیچھے شور والی کہانی کا کلائمکس دکھائی دے رہا تھا۔ وہ وقار، کہ بقول فیض احمد فیض جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں، اب اس کی جون ہی بدل گئی تھی ۔ گلاب کے پھولوں پر بہار اتر آئی تھی اور ایسے میں کوئی پروانہ کسی پھول پر مچل بیٹھے تو ہنگامہ برپا ہونا ناگزیر تھا۔ مگر یہ زمانہ مختصر مدت کے لئے رہا اور اس کے بعد فیض پردے سے غائب ہو گئے اور ہم سات سمندر پار چلے گئے ۔ کچھ جانکاری حاصل کی تو معلوم ہوا کہ موصوف اپنے ہم عمروں کی طرح مصیبت ماری پڑھائی کو پیارے ہو چکے ہیں اور اب دسویں کے امتحان تک واپسی کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہر روز امتحان سے گزارا تو میں گیا
تیرا تو کچھ نہیں گیا، مارا تو میں گیا
اس دوران ہم نے ’’پیوسته رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کی بنیاد پر رابطہ قائم رکھا، جس کا نتیجہ بالآخر ہماری واپسی کے ساتھ ہی ہونے والی سینیئرز کی لیگ میں نکلا جس میں فیض نے کم بیک کیا مگر یہ تو وہ فیض ہی نہیں جس کو ہم جانتے پہچانتے تھے۔ ٹکی پیک اب ہاف رول بن گیا تھا، فیض اپنے سے بڑا دکھائی دینے لگا ۔ طبیعت میں سنجیدگی اور متانت، بھاری بھر کم موضوعات پر گفتگو (بھاری بھر کم جثے کے ساتھ)، ایک ہی ٹیم میں کھیلنے کا موقع ملا مگر اب جو صلاحیت نکھر کر سامنے آئی وہ تصویر کشی (photography) کا فن تھا۔ ’’ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات‘‘ خیرفیض نے لیگ کو چار چاند لگا دیئے۔ آج کل ایک زندہ تابندہ جیتے جاگتے فیس بک پیج کے تنِ تنہا مالک ہیں جس کا نام phothoughts ہے کہ ’’خونِ جگر سے ہے معجزہ فن کی نمود‘‘ ۔ ابھی حال ہی میں ہونے والی اکیڈمی لیگ کے لئے انتظامِ کار کا بیڑہ اٹھانے والی تین رکنی کمیٹی میں فیض کو شامل کیا گیا تو گویا ایک جہانِ فن کو تخیل سے تخلیق کا سفر طے کرنے کا نادر موقع ہاتھ آ گیا۔ اس چھپے رستم نے تصویر کا وہ رُخ دکھایا جس سے وہ خود بھی آگاہ نہیں تھا۔ حُسنِ انتظام، جانفشانی اور لگن کی ایک درخشندہ مثال ۔۔۔۔!
21 جون فیض کی سالگرہ کا دن ہوتا ہے ۔ اس بار ان کی خوشیوں میں شریک ہونے کا موقع ملا ۔ ہماری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گی۔ امید ہے کہ آپ کی پیشہ ورانہ خدمات سے ادارہ یوں ہی مستفید ہوتا رہے گا کیونکہ ’’لطف گویائی میں تری ہمسری ممکن نہیں ۔۔۔۔‘‘۔